میں تجھ کو پا کے مر نہ جاؤں کہیں!!!
تو ایسا کر میری خواہشوں کو رد کر دے_____😌
ہوس نہ جان تجھے چھو کے دیکھنا ...... یہ ہے
تجھے ہی دیکھ رہے ہیں کہ خواب دیکھتے ہیں
اگر محبوب انقلابی درس دینے والا ہو تو عاشق انقلاب برپا
کر سکتا ہے______🖤
بتا دیا ہے تجھے ' یہ سماں نہیں ہونا
نظر ہٹائی تو ہم نے یہاں نہیں ہونا
ترا شمار بڑھانے کو صفر ہو جاؤں
مجھے بس اتنا بتا دے کہاں نہیں ہونا
اتنا خالی ہے مرا گھر کہ سرِ شام ترا
نام لیتا ہوں تو آواز پلٹ آتی ہے
وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
سلیم بیتاب
اک ویرانہ سا گھر تھا بلکل اجڑا ہوا
مگر اک پھول نے تھا گھرکو سنوارا ہوا__🖤
ممکن نہیں ہے تُو ہو جہاں میں وہاں نہ ہوں
تُو پھول ہے تو پھر مجھے خوشبو خیال کر😌🖤
ہاۓ کوئی جادو گری تو ہے تجھ میں!
اک عمر سے میں تیرے اثر میں ہوں!❤️
چہروں کا انبار لگا ہے میری ذات کے کمرے میں
دن بھر مجھ کو کتنے ہی کردار نبھانے پڑتے ہیں 🙂💯
تیرا وجود ہے کہ کسی سامری کا شر
بہکا رہا ہے مجھ کو مسلسل شدید تر۔۔۔
*نہیں مشکل وفا ____ یہاں دیکھو ذرا*
*تیری آنکھوں میں بستا ہے میرا جہاں*
*زندگی میں اگر کوئی آپ کا کردار اٹھا کر*
*چوک میں بھی رکھ دے تو اطمینان رکھو۔*
*اور*
` *یاد رکھو کہ*
*جب تک اللہ نہ چاہے*
*کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا* ۔
` *کیونکہ* :
`عزت اور ذلت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔💯✨`
غزل.1
کوئی بھی شکل مرے دل میں اتر سکتی ہے
اک رفاقت میں کہاں عمر گزر سکتی ہے
تجھ سے کچھ اور تعلق بھی ضروری ہے مرا
یہ محبت تو کسی وقت بھی مر سکتی ہے
میری خواہش ہے کہ پھولوں سے تجھے فتح کروں
ورنہ یہ کام تو تلوار بھی کر سکتی ہے
ہو اگر موج میں ہم جیسا کوئی اندھا فقیر
ایک سکے سے بھی تقدیر سنور سکتی ہے
صبح دم سرخ اجالا ہے کھلے پانی میں
چاند کی لاش کہیں سے بھی ابھر سکتی ہے
اظہر فراغ
2.غزل
زندگی کی ہنسی اڑاتی ہوئی
خواہش مرگ سر اٹھاتی ہوئی
کھو گئی ریت کے سمندر میں
اک ندی راستہ بناتی ہوئی
مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے
ایک تصویر مسکراتی ہوئی
آ گئی خامشی کے نرغے میں
زندگی مجھ کو گنگناتی ہوئی
میں اسے بھی اداس کر دوں گا
صبح آئی ہے کھلکھلاتی ہوئی
ہر اندھیرا تمام ہوتا ہوا
جوت میں جوت اب سماتی ہوئی
وکاس شرما راز
3.غزل
غم کے ہاتھوں مرے دل پر جو سماں گزرا ہے
حادثہ ایسا زمانے میں کہاں گزرا ہے
زندگی کا ہے خلاصہ وہی اک لمحۂ شوق
جو تری یاد میں اے جان جہاں گزرا ہے
حال دل غم سے یہ ہے جیسے کسی صحرا میں
ابھی اک قافلۂ نوحہ گراں گزرا ہے
بزم دوشیں کو کرو یاد کہ اس کا ہر رند
رونق بار گہ پیر مغاں گزرا ہے
پا بہ گل جو تھے وہ آزردہ نظر آتے ہیں
شاید اس راہ سے وہ سرو رواں گزرا ہے
نگرانیٔ دل و دیدہ ہوئی ہے دشوار
کوئی جب سے مری جانب نگراں گزرا ہے
حال دل سن کے وہ آزردہ ہیں شاید ان کو
اس حکایت پہ شکایت کا گماں گزرا ہے
وہ گل افشانیٔ گفتار کا پیکر سالکؔ
آج کوچے سے ترے اشک فشاں گزرا ہے
عبد المجید سالک
4.غزل
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد
پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا
راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لیے
مجھ کو سیدھے راستے سے در بہ در اس نے کیا
شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔ
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
منیر نیازی
منیر نیازی
5.غزل
تیرا ہر راز چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
خود کو دیوانہ بنائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
ساقیٔ بزم کے مخصوص اشاروں کی قسم
جام ہونٹوں سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
اس نمائش گہہ عالم میں کمی ہے اب تک
اشک آنکھوں میں چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
شب کی دیوی کا سکوت اور ہی کچھ کہتا ہے
پھر بھی دو شمعیں جلائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
میری اک آرزوئے دید کا اعجاز نہ پوچھ
منہ کو ہاتھوں سے چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
یاد بھی تیری اک آزار مسلسل ہے مگر
اپنے سینے سے لگائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
ہم کو معلوم ہے اخترؔ کہ ہماری خاطر
ایک عالم کو بھلائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی
اختر صدیقی